1 min to read
گر پھول غزل گائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
گر پھول غزل گائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
بلبل کوئی کِھل جائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
اژدر کوئی شرمائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
کانٹا کوئی مرجھائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
جب ٹوٹی ہوئی شاخ کوئی فرشِ چمن سے
اٹھ پیڑ سے لگ جائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
جب وقت کا یہ قافلۂ ریگِ رواں بھی
منزل کا نشاں پائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
صحرا کی جب آوارہ ہوا چاند سے جا کر
صندل کی مہک لائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
جب دھوپ کی شدت سے مرے شیشۂ دل کا
سایہ بھی پگھل جائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
ندی کو پھسلنے سے جو روکے کوئی تارہ
اور آپ ہی بہہ جائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
احساس کی امکان پذیری کا تصور
‘لگنے’ سے جو کترائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
محمد ریحان قریشی
Comments