1 min to read
نے شکر کا لمحہ نہ شکایت کی گھڑی ہے
غمگین فضاؤں میں یہی بات لکھی ہے
گلشن کی ہواؤں میں ابھی تیری کمی ہے
اک لہر خموشی کی ہے اک وہ! کی لڑی ہے
الجھن میں ہوں کیا داد ہے کیا داد رسی ہے
ویسے تو غضب کا ہوں میں لفاظ ولیکن
یہ نظم فقط تیرے لیے سہل کہی ہے
رسوا تو نہ کر معبدِ دل کو کہ یہاں پر
اے کعبۂ ناموس تری یاد بسی ہے
بے فائدہ بیٹھے ہیں بساطوں پہ اناڑی
شاطر ہوں میں اور چال مری سادہ دلی ہے
تنہائی میں یوں رنج و طرب شیر و شکر ہیں
نے شکر کا لمحہ نہ شکایت کی گھڑی ہے
میں وہ کہ سزاوارِ محبت ہی نہیں ہوں
تو وہ کہ ترا ذکر بڑی بے ادبی ہے
ناپید تغزل کا جو عنصر ہے غزل میں
شاید یہ محبت سے مری بے غرضی ہے
اک لفظ کہ در دامِ سرِ نطق نہ آئے
انسان کی تفسیر سبھی اس میں چھپی ہے
کچھ ربط ہے قامت سے تری میرے گلوں کو
لگتا ہے کہ ہر رگ پہ قیامت سی کھڑی ہے
دیکھے ہی نہ تھے اور گھلے جاتے ہیں سب خواب
شاید کہ یہ احساس کی آتش نفسی ہے
چہرے سے اب اپنے بھی مجھے ڈر نہیں لگتا
دل توڑنے والے تری آئینہ گری ہے
اب تک ہے لبوں پر وہی افسانۂ ریحان
غزلوں میں مگر نغمہ سرا اور کوئی ہے
محمد ریحان قریشی
Comments