ہم ایسے مردہ دلوں کو ملال کچھ بھی نہیں

Imagem de capa

جو عمر باقی ہے اس کا خیال کچھ بھی نہیں
گزر چکی ہے جو اس پر ملال کچھ بھی نہیں

ہمیں تو خلق سے اب قیل و قال کچھ بھی نہیں
کہاں کا شکوہ کہ جب عرضِ حال کچھ بھی نہیں

جواب ہی تو ہیں سب کچھ سوال کچھ بھی نہیں
بس اعتقاد میں جاں کا وبال کچھ بھی نہیں

حیات کا تو ہے موجب بھی ماحصل بھی حیات
کہ وجہ کوئی نہ تھی اور مآل کچھ بھی نہیں

تمام خلق ہے عیب و ہنر کی فلسفہ داں
سوائے میرے کہ مجھ میں کمال کچھ بھی نہیں

جو ذہن میں ہے بھلا کس طرح بیاں ہوگا؟
کہ ذہن میں تو برائے مثال کچھ بھی نہیں

یہی ہے آتشِ دل سوز سے پیامِ دل
گماں نہ کیجے کہ آبِ زگال کچھ بھی نہیں

بساطِ دہر پہ ہر جا ہے شاہ مات لکھا
سیہ سپید ہے سب لایزال کچھ بھی نہیں

مری زبونیِ ہمت بھی دہر کا ہے کرم
کہ آدمی تو بجز انفعال کچھ بھی نہیں

سبھی عیوب کا اپنے ہے اعتراف مگر
ہم ایسے مردہ دلوں کو ملال کچھ بھی نہیں

یہی ہے مقصدِ ہرزہ سرائیِ ریحان
نہ ہو زوال تو بے شک کمال کچھ بھی نہیں

محمد ریحان قریشی