منزل کا ہر سراغ نمازِ سفر میں ہے

Imagem de capa

نیرنگ خوب کارگہِ شیشہ گر میں ہے
پر کیا شکستِ رنگ ترے سنگِ در میں ہے

ہے انتہائے عقل یہ سودا جو سر میں ہے
فکر و نظر کا معرکہ فکر و نظر میں ہے

صد کعبۂ مراد تری رہگذر میں ہے
منزل کا ہر سراغ نمازِ سفر میں ہے

کرباس تن پہ اور خیالِ حریرِ ناز
یوں صد ہزار شعلہ رگِ آستر میں ہے

یہ بھی بس اک خیال ہے وہ بھی بس اک خیال
کچھ برتری نہ عیب میں ہے نے ہنر میں ہے

کیا کیجیے کہ سہل ہے بس راہِ زندگی
اور سب نشاط سیرِ رہِ پر خطر میں ہے

حشر اس طرف اٹھا ہے کہ حشر اس طرف اٹھا؟
نظارگی میں دم ہے کہ رقصِ شرر میں ہے

یہ آب و خونِ چشم ہے افشردۂ حیات
‘سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے’

ریحان گو ہے کارِ زیاں شاعری مگر
کاری طلسم اس شجرِ بے ثمر میں ہے