اک نظر تازگیِ دل کا سبب تو دیکھو

Imagem de capa

اک نظر تازگیِ دل کا سبب تو دیکھو
اشکِ رنگیں میں سجی بزمِ طرب تو دیکھو

لمسِ جاں بخش سے کیا زیست کے ماروں کو غرض
حرف کہنے کو ترستے ہیں، یہ لب تو دیکھو

حدتِ مہر سے ممکن ہے پگھل جائے وجود
طالبِ ضو ہے مگر کرمکِ شب تو دیکھو

دیکھنا اس کا نہیں باعثِ تقلیلِ نشاط
دیکھنے والو کبھی فرطِ تعب تو دیکھو

ایک پر ایک عنایت کیے جاتا ہے نصیب
ہاں مگر مجھ پہ مرا قہر و غضب تو دیکھ

آئنے ہیں کہ ہر اک سمت نظر آتے ہیں
مضحکہ خیز ہے ہر کام کا ڈھب تو دیکھو

کبھی دیکھو تو کسی کشتۂ ارمان کو تم
اور کبھی خواہشِ خواہانِ طلب تو دیکھو

جلد ریحان بجائے گی گھڑی طبلِ رحیل
تب بھی ہوگی نہ یہ گفتار کہ اب تو دیکھو