مت سمجھ مقصدِ حیات نہیں

Imagem de capa

آنکھ میں چشمۂ حیات نہیں
پھر بھی تصویر بے ثبات نہیں

کیوں کوئی کشورِ خیال میں آئے
کیا مرے بس میں میری ذات نہیں؟

کوئی مجنوں یہ کہہ رہا تھا آج
عشق صحرا ہے کائنات نہیں

کائناتیں تمام تیری ہیں
میرے حصے میں میری ذات نہیں

منبعِ روشنی نہیں  ہے  چشم
نجم کیا چشمِ بے سبات نہیں؟

موت کی آرزو میں جیتا ہوں
مت سمجھ مقصدِ حیات نہیں

اک ہی مضمونِ یاوہ گوئی ہے
میری باتوں میں سو نکات نہیں

حد سے بڑھتا ہے شوقِ استغنا
اب کے کوئی رہِ نجات نہیں

محمد ریحان قریشی