1 min to read
وہ آنکھ جو پلکوں کا سفر دیکھ رہی ہے
لعل و گہر و لختِ جگر دیکھ رہی ہے
اک تازہ جہاں دیدۂ تر دیکھ رہی ہے
کس کو تری دزدیدہ نظر دیکھ رہی ہے
کیا جرم کیا ہے جو ادھر دیکھ رہی ہے
اس دشمنِ فن عہد میں با ذوقِ نظر، چشم
خاموشیِ اربابِ ہنر دیکھ رہی ہے
قائم روش اپنی پہ ہے مظلوم کی فریاد
ہنگامۂ ظالم کا اثر دیکھ رہی ہے
میں بے خبر اخبار کی سطروں میں ہی گم ہوں
اور مجھ کو تواتر سے خبر دیکھ رہی ہے
وہ خواب کہ تعبیر بھی جس کی ہے بس اک خواب
وہ آنکھ جو پلکوں کا سفر دیکھ رہی ہے
محمد ریحان قریشی
Comments