1 min to read
جب بھی پاتا ہوں تجھے کھویا ہوا پاتا ہوں میں
آئنے کے سامنے یہ سر جھکا پاتا ہوں میں
غیر تو پھر غیر ہیں خود سے بھی شرماتا ہوں میں
اے غمِ ہستی مجھے یوں چھوڑ کر تنہا نہ جا
اے شبِ ماتم تری فرقت میں گھبراتا ہوں میں
جس سے آ جاتی ہے ہر مخفی حقیقت سامنے
وہ طلسمِ چشم بستن تجھ کو دکھلاتا ہوں میں
جس کے پہلو میں چھپے ہیں سب سوالوں کے جواب
آہ اس افسانۂ ہستی کو جھٹلاتا ہوں میں
گفتگو میری نہیں جز پیرویِ سامری
اس فسونِ عاجزی پر کتنا اتراتا ہوں میں
میں کہ ہوں بزمِ دو عالم کا وہ عیشِ دائمی
مدتِ رقصِ شرر میں ختم ہو جاتا ہوں میں
تو مجھے مل کر بھی اے ریحؔان ملتا ہی نہیں
جب بھی پاتا ہوں تجھے کھویا ہوا پاتا ہوں میں
محمد ریحان قریشی
Comments