1 min to read
لفظوں کی بے بسی کو بھی دیکھا کرے کوئی
رنگ از گدازِ چشم جو پیدا کرے کوئی
تب جا کے تیرا اصل تماشا کرے کوئی
ہر پیاس کے سراب کو صحرا کرے کوئی
ہر لرزشِ حباب کو دریا کرے کوئی
کیوں اس وجودِ زشت کو زیبا کرے کوئی
زیبا جسے کہیں اسے مجھ سا کرے کوئی
حاصل سوائے خونِ تمنا نہ چاہیے
جب تک امید ہو نہ تمنا کرے کوئی
از بسکہ عمر ہو گئی اس شغل میں تمام
اب ناتمامیوں کا گلہ کیا کرے کوئی
سوز و گداز شعر میں یوں ہے تو کم مگر
لفظوں کی بے بسی کو بھی دیکھا کرے کوئی
ہر گام ایک معبدِ منزل ہے راہیو
اپنی جبیں کو نقشِ کفِ پا کرے کوئی
محمد ریحان قریشی
Comments