جبر و قدر

Imagem de capa

کون پھر سینۂ مجروح میں ہے رقص کناں؟
کون سا رمز ہے جو آج کھلا ہے مجھ پر؟
آج پھر خواب میں اک شخص نے رکھا ہے قدم
کیوں مری ذات بغاوت پہ اتر آئی آج؟
کس نے پھر شعرِ نظیری سے کیا دل بے چین؟
کس نے پھر میری نظر موڑ دی پیچھے کی طرف؟
یعنی اک معرکۂ کفر و مسلمانی پر
کس نے پھر جبر سے یہ مجھ سے کہلوایا آج؟
“فرض و سنت بتماشائے تو از یادم رفت
پردہ بر روی فگن یا زمن ایمان مطلب”
فرض ہے تیری محبت میں امر ہو جانا
اور سنت ترا سامانِ نظر ہو جانا
اپنی قدرت کا تماشا نہ دکھاؤں تجھ کو؟
یاد رکھ کر بھی میں اب بھول نہ جاؤں تجھ کو؟
ہاں نظر آج ترے رخ پہ ہی مرکوز رہی
لیک دل دوز رہی اور نگہ سوز رہی
شیخ و ناصح کی وعیدوں کا نہیں تھا یہ اثر
میری قدرت ہےنہیں جس کی کوئی تجھ کو خبر
میرے افکار نے بخشا ہے مجھے ذوقِ نظر
ہر گھڑی میرا مقدر ہے پشیماں ہونا
اپنے آپ ایک خطا ہے مرا انساں ہونا
اور کوئی بھی خطا مجھ سے نہ ہو پائے گی
خندہ زن ہے کوئی تشریکِ جلی پر میری
بخش دیتا ہے مجھے سادہ دلی پر میری

محمد ریحان قریشی